حضرت عمر رضی اللہ عنہ كی خلافت كے زمانے میں ایك نوجوان شخص جو بڑی خوش الحانی كے ساتھ ستار (بجانے كا آلہ) بجایا كرتا تھا، اس كی سریلی آواز پر مرد، عورت، بچے سبھی قربان تھے، اگر كبھی مست ہوكر گاتا ہوا جنگل سے گزر جاتا تو چرند پرند اس كی آواز سننے كے لیے جمع ہوجاتے، رفتہ رفتہ جب یہ بوڑھا ہوا اور آواز بڑھاپے كے سبب بھدی ہوگئی تو آواز كے عاشق بھی رفتہ رفتہ كنارہ كش ہوگئے، اب بڑھاپے میں جدھر سے گزرتا كوئی پوچھنے والا نہیں، نام و شہرت سب رخصت ہوگئے، فاقوں پر فاقے گزرنے لگے، لوگوں كی اس خودغرضی كو سوچ كر ایك دن بہت غمزدہ ہوا، اور دل میں كہنے لگا كہ اے میرے اللہ! جب میں خوش آواز تھا تو مخلوق مجھ پر پروانہ وار گرتی تھی اور ہرطرف میری خاطر تواضع ہوتی تھی، اب بڑھاپے سے آواز خراب ہوگئی تو یہ خواہش پرست اور خودغرض لوگ میرے سایہ سے بھی بھاگنے لگے، ہائے! ایسی بےوفا مخلوق سے میںنے دل لگایا، یہ تعلق كس درجہ پُرفریب تھا، كاش! میں آپ كی طرف رجوع ہوا ہوتا اور اپنے شب و روز آپ ہی كی یاد میں گزارتا اور آپ ہی سے اُمیدیں ركھتا تو آج یہ دن نہ دیكھتا۔ بوڑھا گلوكار دل ہی دل میں نادم ہورا تھا اور آنكھوں سے آنسو بہہ رہے تھے كہ اللہ تعالیٰ كی رحمت نے اس كے دل كو اپنی طرف كھینچ لیا۔ چنانچہ بوڑھے گلوكار نے ایك آہ كھینچی اور مخلوق سےمنہ موڑكر دیوانہ وار مدینہ منورہ كے قبرستان كی طرف روانہ ہوگیا اور ایك پرانی و شكستہ قبر كے غار میں جابیٹھا اور دعا كرنے لگا۔ روتے ہوئے اس نےاللہ تعالیٰ سے عرض كیا كہ اے اللہ! آج میں تیرا مہمان ہوں، جب ساری مخلوق نے مجھے چھوڑدیا تو اب بجز تیری بارگاہ كے میرے لیے كوئی پناہ گاہ نہیں ہے اور بجز تیرے كوئی میری اس آواز كا خریدار نہیں ہے۔ اے اللہ! آشنا، بیگانے ہوچكے اور اپنے، پرائے ہوچكے، اب سوائے آپ كے میری كوئی پناہ گاہ نہیں ہے۔ اے اللہ! میں بڑی اُمیدیں لےكر آپ كی بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں، اپنی رحمت سے آپ مجھے نہ ٹھكرائیے۔ پرانی قبر كے اس غار میں بوڑھا گلوكار اس طرح آہ وزاری میں مشغول تھا اور آنكھوں سے خونِ دل بہہ رہا تھا كہ اللہ تعالیٰ كا دریائے رحمت جوش میں آگیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ كو الہام ہوا كہ اے عمر! میرا فلاں بندہ جو اپنی خوش آوازی كے سبب زندگی بھر مخلوق میں مقبول و محبوب رہا ہے، اور اب بڑھاپے كی وجہ سے آواز خراب ہوجانے سے ساری خلقت نے اسے چھوڑدیا ہے اور اس كے روزگار كے ذرائع كا ختم ہونا اور ناكامی كا غم اس كی ہدایت كا اور میری طرف رجوع كا سبب بن گیا ہے، تو اب میری وسعتوں والی رحمت اس كی خریدار ہے، اگرچہ زندگی بھر وہ نافرمان و غافل رہا ہے؛ لیكن میں اس كی اہ وزاری كو قبول كرتا ہوں؛ كیونكہ میری بارگاہ كے علاوہ میرے بندوں كے لیے كوئی اور جائے پناہ نہیں۔ پس اے عمر! آپ بیت المال سے كچھ معتدبہ رقم لےكر اس قبرستان میں جائیے اور میرے بندۂ عاجز و بےقرار كو میرا سلام پیش كیجیے، پھر یہ رقم پیش كركے كہ دیجیے كہ آج سے حق تعالیٰ نے تجھے اپنا مقرب بنالیا ہے اور اپنے فضل كو تیرے لیے خاص كردیا ہے، اب تجھے غمزدہ ہونے كی ضرورت نہیں اور نہ ہی مخلوق كے سامنے ہاتھ پھیلانے كی ضرورت ہے۔ اے عمر! میرے اس بندے سے كہ دو كہ حق تعالیٰ نے ہمیشہ كے لیے غیب سے تیری روزی كا انتظام كردیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جس وقت غیب سے یہ آواز سنی تو بےچین ہوگئے، فوراً اٹھے اور بیت المال سے كچھ رقم لےكر قبرستان كی طرف چل دیئے، وہاں پہنچ كر دیكھتے ہیں كہ ایك پرانی اور ٹوٹی قبر كے غار میں ایك بوڑھا آدمی ستار لیے ہوئے سوگیا ہے اور اس كا چہرہ اور داڑھی آنسوئوں سے تر ہے، جی ہاں! اسی اشكِ ندامت سے اس كو یہ مقام ملا ہے۔ خلیفۂ وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس پرانی قبر كے سامنے باادب كھڑے ہوئے انتظار فرمارہے تھے كہ بوڑھا گلوكار بیدار ہو تو ان سے اللہ تعالیٰ كا سلام پیام عرض كروں، اسی اثناء میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ كو چھینك آگئی جس سے اس كی آنكھ كھل گئی، خلیفة المسلمین كو دیكھ كر مارے خوف كے وہ كانپنے لگا كہ اس ستار كی وجہ سے نہ جانے آج مجھ پر كتنے دُرّے پڑیںگے؛ كیونكہ عہدِخلافتِ عمر رضی اللہ عنہ میں دُرّۂ فاروقی كی بڑی شہرت تھی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب دیكھا كہ بوڑھا گلوكار كانپ رہا ہے تو ارشاد فرمایا كہ ڈرو نہیں! میں تمہارے رب كی طرف سے تمہارے لیے بہت بڑی خوشخبری لایا ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ كی زبانِ مبارك سے بوڑھے گلوكار كو جب اللہ تعالیٰ كے الطاف و عنایات اور مہربانیوں كا علم ہوا تو اللہ تعالیٰ كی وسیع رحمت كے مشاہدہ سے اس پر شكر و ندامت كا حال طاری ہوگیا۔ غلبۂ حیرت اور شرمندگی سے كانپنے لگا، اپنے ہاتھ كو ندامت سے چبانے لگا اور اپنے اوپر غصہ ہونے لگا، اپنی غفلت اور حق تعالیٰ كی رحمت كا خیال كركے ایك چیخ ماری اور كہا كہ ایے میرے بےمثل آقا! اپنی نالائقی اور غفلت كے باوجود آپ كی رحمتِ بےمثال كو دیكھ كر میں شرم سے پانی پانی ہورہا ہوں، جب بوڑھا گلوكار خوب روچكا اوراس كا درد حد سے گزرگیا تو اپنے ستار كو غصہ سے زمین پر پٹخ كر ریزہ ریزہ كردیا اور اس كو مخاطب كركے كہا كہ تونے ہی مجھے اللہ تعالیٰ كی محبت و رحمت سے دُور ركھا تھا، تونے ہی سترسال تك میرا خون پیا، یعنی تیرے ہی سبب لہو و لعب اور نافرمانی كرتے كرتے بوڑھا ہوگیا اور تیرے ہی سبب میرا چہرہ اللہ تعالیٰ كے سامنے سیاہ تھا۔ اس بوڑھے شخص كی یہ گریۂ وزاری اور آہ و بكاء سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ كا كلیجہ منہ كو آرہا تھا اور آپ كی آنكھیں اشك بار ہورہی تھیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا كہ اے شخص! تیری گریہ وزاری، تیری باطنی ہوشیاری كی دلیل ہے، تیری جان اللہ تعالیٰ كے قرب سے زندہ اور روشن ہوگئی ہے؛ كیونكہ اللہ تعالیٰ كی بارگاہ میں گنہگار كے آنسوئوں كی بڑی قیمت ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ كی صحبتِ مباركہ كے فیض سے وہ گلوكار پیرطریقت ہوگئے اور اكابر اولیاء اللہ كی صف میں داخل ہوگئے۔ مذكورہ بالا واقعہ سے حاصل ہونے والا سبق: اس واقعہ سے معلوم ہوا كہ انسان كو اپنی كسی بدحالی كی وجہ سے نااُمید نہ ہونا چاہیے اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ كی رحمت سے اُمیداور رہنا چاہیے۔ اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوا كہ اللہ تعالیٰ كے سوا جتنے تعلقات ہیں، سب فانی ہیں اور ان میں كچھ بھی وفاداری كا مادہ نہیں، صرف اللہ تعالیٰ ہی كی ذات پاك ایسی كریم اور حی و قیوم ہے جو ہرحال میں اپنے بندوں كی خریدار ہے؛ البتہ وہ محبت اور تعلق جو كسی كو كسی سے صرف اللہ تعالیٰ ہی كے لیے ہو، وہ اللہ تعالیٰ ہی كی محبت میں داخل ہے۔ اس واقعہ سے ہمیں یہ بھی سبق ملتا ہے كہ عاجزی و انكساری اور توبہ و استغفار كی اللہ تعالیٰ كے نزدیك وہ قدر و قیمت ہے كہ زندگی بھر كی نافرمانیوں كو مٹاكر اللہ تعالیٰ كے انتہائی قریب كردیتی ہے۔ (مثنوی مولانا روم كے ایمان افروز واقعات:ص؍۲۱) منجانب عبدالرازق اعظمی مكتبہ الحرمین دیوبند
ایك بوڑھے گلوكار كی توبہ كا سبق آموزواقعہ
Md Zafar Alam
Comments